Orhan

Add To collaction

محبت کا آخری سفر 

محبت کا آخری سفر 
  از پری وش تالپور
قسط نمبر1

"وہ ٹیوشن سینٹر سے باہر نکلی تو گاڑی سے ٹیک لگائے ڈاکٹر آریان اس کے انتظار میں کھڑا تھا ، اسے دیکھ کر بھرپور انداز میں مسکرایا ، وہ بھی دلکشی سے اسے دیکھ کر مسکراتی ہوئی اس کی طرف بڑھی"
"کار کا دروازہ آریان نے اس کے لیے کھولا تو وہ بیگ سنبھالتی ہوئی بیٹھ گئی اور وہ دوسری سائیڈ سے ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا"
"گاڑی اسٹارٹ ہو کر آگے بڑھی تو عائشہ سکندر نے بے بسی سے اسے دیکھا اور وہ سمجھ گیا وہ آج بھی ناشتہ نہیں کر کے آئی نا ٹفن لے کر آئی ہے "
"ایک ریسٹوڑنٹ کے سامنے گاڑی روک کر بنا کچھ کہے ریسٹورنٹ کے اندر گیا اس کا پسندیدہ کھانا پیک کروا کر آیا فرائے فش بریانی اور روٹیاں اس کے سامنے کھول کر رکھیں"
"جلدی ختم کرو اب مجھے ہاسپیٹل بھی پہنچنا ہے وہاں کچھ کیسز میرے انتظار میں ہیں پہلے تو سوچا ڈرائیور کو بھیجوں تمہیں پک کرنے کے لیے مگر پھر صبح تمہارے موڈ کا سوچ کر خود چلا آیا کہیں مجھ سے بھی ناراض نا ہو جاو"
"اس نے عائشہ کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ مسکرادی "
"ہاں تو میں اس دنیا میں صرف آپ کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتی ہوں جب تک آپ کو اپنا غم زدہ چہرہ نا دکھاوں مجھے چین نہیں پڑتا "
"اس نے کھانا نکالتے ہوئے کہا" 
"آریان نے اسے مسکراکر دیکھا پھر فون میں متوجہ ہوگیا" 
"عائشہ نے منہ میں پہلا نوالا ڈالتے ہوئے آریان کو دیکھا تو اپنے منہ میں لے جاتا ہوا نوالہ اس کے منہ کے سامنے کر دیا ، وہ جو موبائل میں اتنی تیزی سے کچھ ٹائپ کر رہا تھا یکدم رکا اسے دیکھا پھر مسکراکر اس کا ہاتھ پکڑ کر نوالا منہ میں رکھا "
"آریان نے بھی نوالہ توڑ کر اسے بچوں کی طرح کھلایا عائشہ کی آنکھوں میں بے پناہ آنسو تیر آئے '
"اوں ہوں اب کھانے کے ساتھ آنسو تو مت کھاو" 
"آریان نے ٹشو اسے تھماتے ہوئے کہا "
"میں نے کبھی اپنوں کی محبت نہیں دیکھی بچپن میں ماں باپ چلے گئے تو دادی کی جھولی میں آئی ، دو سالوں میں وہ بھی اکیلا کر گئی ماموں جو باہر گئے تو کبھی پلٹ کر نہ پوچھا بہن کی کوئی بیٹی بھی ہے جنہیں وہ اپنا بنا کر گئے ہیں جس کی آج تک خبر بھی نہیں لی ، چاچاوں نے بیویوں کے ڈر سے دیکھنا بھی چھوڑ رکھا ہے کزنز سمجھتی ہیں کہ اگر انہوں نے مجھ سے میل ملاپ رکھے تو  کہیں میں ان کے سر پر نا مسلط ہوجاوں اپنی ضرورت کے لیے ان سے سوال نا کر لوں " 
"آریان غور سے اسے دیکھ رہا تھا کتنی تکلیف سے بول رہی تھی کتنی کم مائیگی تھی اس کے اندر وہ سوائے افسوس کے کچھ نہیں کر سکا " 
"اچھا اب صبح تمہاری چاچی نے پھر کیا کہا تھا تمہارے غصے والے میسج اب بھی میرے دماغ میں گونج رہے ہیں "
"آریان نے بڑی مشکل سے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اپنی مسکراہٹ چھپائی "
"عائشہ نے یکدم زبان باہر نکالی اور ٹیڑھی آنکھ کر کے اسے دیکھا اس کے چہرے پر شرمندگی نے آں گھیرا صبح وہ اتنے غصے میں تھی چچی اسے نجانے کتنا کچھ سنا کر گئی تھی ، اور وہ خاموشی سے سنتی آنسو بہاتی رہی وہ بذدل کبھی کسی کو کچھ نا کہتی تھی چاہیں کوئی اسے کتنا کچھ کہہ ڈالے ، لڑ جائے مگر وہ بس خاموش کھڑی سنتی رہتی اس کے بعد وہ اپنی ساری بھڑاس میسج کے ذریعے آریان کو سناتی تھی ، صبح بھی اس نے چاچی کے جانے کے آریان کو میسج کیے جس میں اس نے چچی کو موٹی بھینس زہریلا کیڑا ڈراونی چڑیل جیسے القابات سے نوازا تھا "
"وہ صبح چچی نے آکر کہا کہ میرا بڑا بیٹا احتشام تم سے شادی کرنا چاہتا ہے میں نے اسے پھنسایا ہے ، اور انہوں نے کہا تم بدنصیب اپنی ماں باپ کو کھا گئی ہو ابھاگن ہو ایسی لڑکی کو میں اپنا بیٹا دے کر اسے بھی موت کے گھاٹ نہیں اتارنا چاہتی ، اور انہوں نے کہا میں ان کے لیے ایک مصیبت ہوں وغیرہ وغیرہ اور بھی نجانے کتنا کچھ سنا کر گئیں تھیں اور میں نے آپ کو میسج "
"عائشہ یہیں پر آکر خاموش ہوگئی "
"اور میں جانتا ہوں یے سب سن کر تم نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالا ہوگا "
"اس کی بات پر عائشہ نے ہاں میں گردن ہلائی" 
"تھینک گارڈ میرے لیکچر تم پر ضایع نہیں ہوتے "
"آریان نے سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی "
"آپ نا ہوتے تو میں اب تک خود کو مار چکی ہوتی" 
"اس نے آریان کو دیکھتے ہوئے کہا " 
"اتنی پیاری لڑکی کو میں مرنے دیتا بھلا"
"آریان نے ایک بند گلی میں گاڑی روکی سامنے گاڑیوں کا اسٹاپ  تھا  گلی سے کچھ ہی فاصلے پر اس کا گھر تھا وہ خدا حافظ کہتی گاڑی سے باہر نکل گئی اور اپنی گھر کی گلی کی طرف بڑہ گئی" 
"آریان تب تک اسے دیکھتا رہا جب تک وہ نظر آتی رہی جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی تو آریان نے گاڑی اپنی ہاسپیٹل کی طرف موڑ دی "
                                    * * * * *
"جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر پایا ماں باپ اسے یاد بھی نہیں تھے وہ کیسے تھے " دادی نے اسے بچپن میں ہی سب بتایا اور سمجھایا تھا جب وہ چار سال کی تھی اس کے ذہن میں بہت سی باتیں دادی کی یاد تھیں ، دادی کہتی تھی تمہارے امی ابو اللہ کے پاس ہیں کیونکہ اللہ نے انہیں پسند کیا ہے تب ہی جلدی لے گیا اور وہ یے بھی کہتی تھیں میری گڑیا بہت بہادر ہے اکیلے ہی ہر چیز کا مقابلا کر سکتی ہے اور وہ خاموشی سے انہیں سنتی جاتی"
 "جب وہ بچوں میں کھیلنے جاتی تو کوئی اسے نہیں کھیلنے دیتا تھا اسے دھکے دیتے یا اس سے کہیں دور کھیلنے چلے جاتے ، وہ دادی کو بتاتی تو دادی اسے گود میں بٹھا کر کہتی میری گڑیا یے سب پاگل ہیں انہیں نہیں پتا تمہارے پاس جادو کی چھڑی ہے ، تمہیں میں وہ دیتی ہوں پھر دیکھنا سب بچے کیسے تمہارے پیچھے دوڑیں گے تب دادی اسے لوہے کی چھڑی تھماتی اس کے اوپر ایک کپڑا باندہ دیتی جب وہ کپڑے کو تھوڑا نیچے کرتی اس میں سے پھول نکلتے کوئی چوکلیٹ نکتا کوئی کھلونا نکلتا مگر یے جادو صرف کچھ دیر ہی چلتا ، کیونکہ جادو کا اثر ختم ہوتے ہی بچے اس سے دور ہو جاتے ، اور ہر بار دادی اسے کسی بھی طریقے سے بچوں کے قریب کرتی اور وہ پھر اس سے دور ہوجاتے ، پھر اس نے خود ہی سمجھوتا کر لیا اور خود ہی بچوں سے الگ ہوگئی پھر کسی کو آج تک منہ نہیں لگایا تھا ، دادی کے چلے جانے کے بعد وہ کچھ سال تو چاچیوں سے چھپکے کھانا لے آتی ، مگر پھر انٹر کی پڑھائی کے بعد اس نے ایک ٹیوشن سینٹر جوائن کر لیا وہ ٹیوشن سینٹر اس کی کالیج کے بلکل قریب تھا اور وہ سینٹر اس کی کالج کی پرنسپل میڈم حاجرہ چلاتی تھیں ، عائشہ نے اپنا سارا مسئلا ان سے شیئر کیا تو انہوں نے اپنی طرف سے اس کی مدد کرنے کی یقین دھانی کروائی تھی ، اس کی آگے کی پڑھائی کا خرچہ بھی وہیں پورا کر رہیں تھیں ، عائشہ نے کچھ آمدنی اپنے ہاتھ میں آتے ہی کچھ راشن کا سامان لیا اور چولہا دادی کے کمرے میں لگالیا جس میں وہ رہتی بھی تھی " 
"ٹیوشن سینٹر میں میڈم حاجرہ کی آفس میں اس کی ملاقات ڈاکٹر آریان سے ہوئی تھی ، 
عائشہ نے جیسے ہی آفس میں قدم رکھا , وہیں شھر کا  مشھور ڈاکٹر آریان بھی بیٹھا ہوا تھا عائشہ کو پہلی نظر دیکھ  کر ہی اس کا دیوانہ ہوگیا تھا ، اس کے کالج اور ٹیوشن ٹائم میں آتے جاتے ہوئے وہ اس کے راستے پر کھڑا اسے ہی دیکھ رہا ہوتا تھا ، کئیں بار مخاطب کرنے کی کوشش کرتا مگر وہ ہر بار اسے نظر انداز کر دیتی ، آریان پھر مایوس ہوکر کئیں دن تک نا آیا عائشہ کی نظریں پل پل اس کی منتظر ہوگئیں ، کیونکہ وہ اس کی محبت میں مبتلہ ہوگئی تھی یے لڑکی کی کمزوری ہوتی ہے اتنے پرکشش قابل شخص کو نظر انداز کرنا مشکل ہو جاتا ہے وہ بھی اس دور میں تھی ، جہاں لڑکیاں خواب بننا شروع کرتی ہیں آخر وہ بھی ہار گئی تھی ، اتنی توجہ اور محبت دیکھ کر اس نے گھٹنے ٹیک دیے تھے وہ توجہ اور محبت کی بھوکی تھی تھوڑی سی توجہ پر وہ نکھر آئی تھی ، خوش رہنے لگی تھی ایک جذبہ جو اسے خوش رکھتا تھا ، وہ محبت کا تھا جو وہ آریان سے کرتی تھی آریان نے اسے محبت کرنا سکھائی تھی "  
"اور وہ اپنی محبت کا اظہار اتنی شدت سے کرتا اسے بھی حیرت ہوتی کے کوئی اس سے اتنی محبت کرتا ہے ، وہ زندگی میں پہلی بار خوش رہنے لگی تھی آریان نے اسے ایک نئی دنیا دکھائی تھی اس کی ساری محرومیاں ختم ہوگئی تھیں ، وہ اب ہر روز آریان سے ملنے لگی تھی اب اگر کوئی تکلیف پہنچتی تو وہ آریان سے اپنا سارا غم شیئر کرتی تھی ، اور وہ کسی متاع حیات کی طرح اس کا ہر غم سمیٹ لیتا "
                                     * * * *
ہیلو  
"عائشہ نے نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا "
"میری جان کالج نہیں جانا آٹھ بج رہے ہیں" 
"آریان کا بس اتنا کہنا تھا کہ وہ پٹ سے آنکھیں کھول کر ہوش میں آئی" 
"اور یے روز ہوتا تھا آریان روز صبح فون کر کے اسے اٹھاتا وہ فجر کی نماز پڑہ کر سوتی تو دوبارہ اٹھنے کی نا کرتی تھی" آریان اس کی کوئی کلاس مس نہیں ہونے دیتا تھا ، ورنہ فرسٹ ٹائم جب آریان اس سے ملتا تو وہ فون کر کے اسے پک کرنے کا کہتی کیونکہ دیر سے کوئی گاڑی اسٹاپ پر اسے نظر نہیں آتی تھی ، تب ہی اسے پتا لگا تھا کہ محترمہ نیند کے مزے لے رہی ہوتی ہے اور کالج میں ، بی ایس سی، کی دو کلاسز ہو چکی ہوتی ہے ، اس لیے روز اسے فون کرتا سوائے اتوار کے آریان صبح پہلی کال اسے ہی کرتا تھا "
"آریان بھی صبح صبح اس کی میٹھی نیند میں ڈوبی آواز سن کر سرشار ہوجاتا "
"جی اٹھ گئی "
"اس نے بیڈ سے اترتے ہوئے کہا "
"گڈ اب جلدی سے ناشتہ تیار کرو آج کہہ دیتا ہوں بنا ناشتے کے نہیں نکلنا اوکے جلدی تیار ہوجانا آج میں خود لینے آ رہا ہوں" 
"آریان نے نرمی سے کہا"
"جی ٹھیک ہے "
"عائشہ نے مسکراکر کال بند کی جلدی سے واش روم میں گھسی منہ ہاتھ صاف کر کے یونیفارم پہنا ناشتے میں پراٹھا اور آملیٹ بنایا چائے کو چولہے پر رکھ کر گندے برتن دھوئے ناشتہ کرنے کے بعد جلدی سے عبایا پہنا نقاب باندہ کر باہر نکل آئی"
"سامنے سے چھوٹے چاچا اپنے بچوں کو کار میں اسکول چھوڑنے جا رہے تھے ، اسے دیکھ کر صرف سلام کر کے گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے ، چھوٹے منہ اس سے چھوڑنے کا تو دور کی بات ایک پیار بھری نظر ڈالنا تک گوارا نہیں کیا تھا "
"ابھی وہ وہیں کھڑی سوچ رہی تھی کے بڑے چاچا کا بیٹا احتشام اور اس کی دو بہنیں نخریلی نک چڑھی منہ پر کافی میک اپ تیز لپ اسٹک دوپٹہ گلے میں لٹکائے اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھیں تھیں ایک ڈاکٹر تھی تو دوسری یونی کی اسٹوڈنٹ احتشام اسے دیکھ چکا تھا مگر اسے ساتھ چلنے کا نہیں کہہ پایا وہ اپنی بہنوں اور ماں سے واقف تھا ، اگر اس سے بات بھی کر لیتا تو پھر جو طوفان اٹھتا تھا وہ اس کے لیے محبت دل میں دبائے خاموش رہتا 
"عائشہ ان کو بھاڑ میں جھونک کر آگے بڑھی کے آریان اس کا منتظر ہوگا وہ روڈ پر آئی تو اسے اپنا منتظر پایا وہ شاید کافی دیر سے کھڑا تھا مگر سامنے والا کوئی بھی ناگواری چہرے پر لائے بغیر اسے دیکھ کر بڑی دلفریبی سے مسکرایا تھا "
"آئی ایم سوری کچھ لیٹ ہوگئی" 
"وہ شرمندہ ہوئی" 
"اٹس اوکے ڈیئر "
"اس نے اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اس کے گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ دوسری سائیڈ میں آکر بیٹھا گاڑی میں عابدہ پروین کے صوفیانے سونگ گونج رہے تھے" 
"عائشہ نے آریان کو دیکھا وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا"  
"سامنے دیکھیں صاحب کہیں ایکسیڈنٹ نا کروا بیٹھیں" 
"اس نے اپنی مخصوص نرم آواز میں کہا "
"کیا کروں یار تمہیں دیکھ کر ہوش کھو دیتا ہوں بس دل چاہتا ہے ایک منٹ کے لیے بھی تمہارے چہرے کو خود سے دور نا کروں "
"آریان نے اپنی مجبوری بتائی "
"عائشہ مسکرادی"
"اچھا اب اگر تم مجھے دیکھ کر گاڑی چلا رہے ہو اور کوئی گاڑی ہماری گاڑی سے ٹکرا گئی ایسیڈنٹ ہوگیا اور اس میں، میں مرگئی تم بچ گئے تو" 
"اس کی بات ابھی ادھوری تھی کے آریان کا پاوں ایک دم بریک پر پڑا اور گاڑی رک گئی اس نے اپنا پورا رخ اس کی طرف کیا" 
"خبردار جان جو ایسی بات دوبارہ کہی "
"اس کے چہرے پر اپنے لیے چھائی پرشانی عائشہ کے اندر ایک سکون پیدا کر گئی تھی آریان کا اظہار محبت ہر بار اسے نئے طرح سے خوش کرتا تھا" 
"تو پھر تب ہی تو بولا کہ سامنے دیکھ کر چلائیں تھوڑی سی لاپرواہی پر کچھ بھی ہو سکتا ہے "
"اس نے اس کی اتنی فکر پر نرمی سے سمجھایا "
"اوکے پھر تمہارے بغیر میں بھی مر جاوں گا تمہاری روح مجھ سے جڑی ہے جان "
"اس نے محبت سے اس کے دونوں گال اپنے ہاتھوں میں لیے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا "
"لیٹ نہیں ہو رہے" 
"آریان کو بہت دیر اسی پوزیشن میں دیکھ کر اسے بولنا پڑا "
"اوہ سوری" 
"اس نے مسکراکر گاڑی اسٹارٹ کی "
"کالیج گیٹ کے تھوڑے فاصلے پر گاڑی رکی تو وہ الحافظ کہہ کر اترنے لگی" 
"عائشہ "
"آریان کی آواز پر اس کا ہاتھ گاڑی کی ہینڈل پر ہی رک گیا "
"جی "
"اس نے دوبارہ اسی پوزیشن میں بیٹھتے ہوئے اسے دیکھا "
 "آریان نے ایک پیکٹ اس کی طرف پڑھایا "
"کیا ہے یے"
"اس نے پیکٹ دیکھ کر پوچھا "
"یے تمہارے لیے ہے کھول کر دیکھ لو "
"اس نے کھولا تو عائشہ نام کا خوبصورت جگمگاتا ہیروں کا بریسلیٹ اسے حیران کر گیا "
"واو بہت خوبصورت ہے تھینکیو سو مچ" 
"اس نے مسکرا کر پیکٹ بیگ میں رکھتے ہوئے کہا "
"اوں ہوں تھینکس میں قبول نہیں کروں گا "
"آریان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا" 
"تو"
" عائشہ نے اسے آنکھیں دکھائیں" 
"اس نے مسکراکر اسے دیکھا"
"تو"
"اس نے اپنی ایک گال پر انگلی رکھی"
"اچھا پھر ذرا قریب تو کرو" 
"آریان جیسے ہی اس کے تھوڑا قریب ہوا عائشہ نے اپنے بڑے ہوئے ناخن بہت زور سے اس کی گال پر گاڑ دیے وہ کراہ کر رہ گیا"
"ظالم چڑیل "
"وہ اپنی گال سہلاتا ہوا بولا"
"اور چاہیے "
"عائشہ نے ہنستے ہوئے کہا "
نہیں کافی ہے 
"آریان نے ہاتھ جوڑ کر کہا "
"تو وہ ہنستی ہوئی گاڑی سے باہر نکل گئی "
                                           * * * * *
"حور فاطمہ "
"میڈم سائرہ کلاس میں اٹینڈس لگوا رہی تھی" 
"نو میڈم "
"کسی اسٹوڈنٹ گرلز کی آواز آئی" 
"حور کی کافی زیادہ چھٹیاں نہیں ہوگئی ہیں" 
"میڈم نے اپنی جوں میں کلاس میں کہا" 
"میڈم اس کی ڈیتھ ہوگئی ہے "
"واٹ"
"کسی دوسرے گرلز کی آواز پر میڈم کے ساتھ ساری کلاس اس بچی کی طرف متوجہ ہوئی عائشہ بھی حیرت زدہ تھی کیونکہ حور فاطمہ سے اس کی کافی بات چیت تھی" 
"کیا ہوا تھا اسے "
"میڈم نے حیرت اور پریشانی سے پوچھا "
"میڈم ہم نے سنا ہے اس نے خودکشی کی ہے "
"دوسری گرلز کی آواز آئی تو عائشہ کے ہاتھ سے پین چھوٹ کر نیچے جا گرا "
"وجہ کیا تھی" 
"میڈم نے دکھی لہجے میں پوچھا "
"میڈم مجھے پتا ہے میرا گھر حور فاطمہ کے قریب ہے"
"ایک گرلز نے اپنی سیٹ سے اٹھتے ہوئے کہا "
"بتائیے آپ" 
"میڈم نے پوچھا "
"حور فاطمہ کسی سے محبت کرتی تھی اور وہ لڑکا اسے اپنی چھوٹی محبت میں پھنسا چکا تھا جب حور کو پتا چلا وہ شادی شدہ ہے تو حور نے خودکشی کر لی' 
"پوری کلاس میں ایک بے نام سی خاموشی چھاگئی میڈم سائرہ سوائے افسوس کے کچھ نا کر سکی ، اور ایک بہت لمبا لیکچر ساری گرلز کو دیا تھا ،  عائشہ کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نکل آئے وہ سارا دن اس بات سے بہت ڈسٹرپ رہی ، آریان نے بھی اسے ٹیوشن سینٹر سے گھر ڈراپ کرتے ہوئے اس کی پریشان محسوس کرلی تھی "

   1
0 Comments